*_________________(🖊)_______________*
*🌹 ســــوال نــمــبــــــر ( 477 )🌹*
*السلام علیکم ورحمۃ ﷲ وبرکاتہ*
*سوال:* کیا فرماتے علمائے دین و مفتیان کرام مسئلے ذیل میں کہ میت کو عمامہ باندھنا کیسا ہے جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی ؟
*🌹الــمــســـتــفــتــی🌹* اویس احمد فردوسی ... *پٹنہ، بہار🔷*
*◆ـــــــــــــــــــــ✅🔷✅ــــــــــــــــــــــ◆*
*وعلیکم السلام ورحمة ﷲ وبركاته*
*الجوابـــــــــــــــــــــ ... !!! بعون الملک الوھاب*
مرد کے کفنِ سنّت میں تین کپڑے ہیں ، لفافہ ، ازار اور قمیص ، عمامہ کفن سنّت میں شامل نہیں ، تاہم متاخرین علماء کرام نے علماء و مشائخ کو عمامہ کے ساتھ دفن کرنے کو جائز و مُسْتَحْسَن فرمایا ہے ، لیکن عام لوگوں کو عمامہ شریف پہنا کر دفنانا مکروہ تنزیہی ہی ہے چنانچہ
💫 *ملک العلماء علامہ ابو بکر بن سعود کاسانی لکھتے ہیں کہ* " و استحسنہ بعض مشائخنا لحدیث ابن عمر : انه کان یعمم المیت و یجعل ذنب العمامۃ علی وجھه " اھ
📚 *( البدائع و الصنائع ، کتاب الصلوۃ ، باب وجوب التکفین ج 2 ص 37 مطبوعہ ، بیروت لبنان )* اور بعض مشائخ نے کفن میں عمامہ کو مستحسن جانا ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما کی حدیث کی وجہ سے کہ آپ میت کو عمامہ باندھتے تھے اور عمامہ کے شملہ کو اس کے چہرے کی طرف کر دیا کرتے تھے جیسا کہ علامہ کمال الدین ابن الھمام لکھتے ہیں کہ " و استحسنھا بعضھم لما روی عن ابن عمر انہ کان یعممه " اھ
📚 *( فتح القدیر شرح الھدایۃ ج 2 114 دار الفکر ، بیروت )* اور بعض فقہاء نے کفن میں عمامہ کو مستحسن جانا ہے اس لیے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ وہ میت کو عمامہ باندھتے تھے علامہ عالم بن علاء انصاری دھلوی لکھتے ہیں کہ " و ھل یعمم الرجل ؟ اختلف المشائخ رحمھم اللہ ،منھم من قال : یعمم لان ابن عمر رضی اللہ عنمھما اوصی به ، و فی الخانیۃ : و استحسن المتاخرون العمامۃ و ھو مروی عن عمر رضی اللہ عنہ و به اخذ مالک " اھ یعنی اور کیا مرد میت کو عمامہ باندھا جائے ؟ مشائخ علیھم الرحمہ کا اس بارے میں اختلاف ہے ، بعض یہ کہتے ہیں کہ عمامہ باندھا جائے ان کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما نے اس بات کی وصیت فرمائی تھی ، اور فتاوی قاضی خان میں ہے : اور متاخرین نے عمامہ کو مستحسن جانا اور یہ ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور اسی قول کو امام مالک نے لیا ہے " اھ
📚 *( الفتاوی التاتارخانیۃ ج 2 ص 146 ،مطبوعہ ، کراچی پاکستان )*
لیکن فقہاء کرام نے اس باب میں اس بات کی تصریح کی ہے کہ کفن میں عمامہ صرف علماء کرام و مشائخ عظام و سادات کے لیے جائز اور ان کے ساتھ خاص ہے چنانچہ علامہ شمس الدین محمد بن عبد اللہ تمرتاشی لکھتے ہیں کہ " و استحسنھا المتاخرون للعلماء و الاشراف " اھ یعنی اور متاخرین نے علماء اور سادات کے لیے کفن میں عمامہ کو مستحسن جانا ہے " اھ
📚 *( تنویر الابصار ، مع الدر المختار ج 3 ص 112 ، مطبوعہ ، بیروت ، لبنان )* اور علامہ شیخ نظام الدین حنفی لکھتے ہیں کہ " و فی الفتاوی استحسنھا المتاخرون لمن کان عالما " اھ یعنی اور فتاوی میں ہے متاخرین نے عالم کے لیے کفن میں عمامہ کو مستحسن جانا ہے " اھ
📚 *( الفتاوی الھندیۃ ج 1 ص 176 مطبوعہ بیروت لبنان )* اور علامہ عمر بن ابراھیم حنفی لکھتے ہیں کہ " و فی السراج اذا کان من الاوساط فلا یعمم " اھ یعنی اور سراج میں ہے کہ عوام کو کفن میں عمامہ نہ باندھا جائے " اھ
📚 *( النھر الفائق ج 1 ص 386 ، دار الکتب العلمیۃ ، بیروت لبنان )* اور صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی لکھتے ہیں کہ " اور کفنی میں عمامہ علماء و مشائخ کے لیے جائز عوام کے لیے مکروہ " اھ
📚 *( فتاوی امجدیہ ج 1 ص 368 مکتبہ رضویہ ، کراچی )*
⬅️ *ان* تمام عبارات سے یہ باتیں معلوم ہوئیں کہ اسلاف میں حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنھما میت کو عمامہ باندھتے تھے ، اور انہوں نے اس کی وصیت بھی فرمائی تھی ،نیز امام مالک کا یہ ہی مذھب ہے ، اور کفن میں عمامہ صرف علماء و مشائخ کے لیے جائز ہے اور عوام کے لیے مکروہ ۔
*❣️واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب❣️*
*_________________(🖊)________________*
*✒کتبــــــــــــــــــــــہ*👇
*حـــضـــرت عـــلامـــہ و مــولانا کـــریـــم الــلــہ رضـــوی صـــاحـــب قـــبـــلــہ خــادم الـــتـــدریـــس دار الـــعـــلـــوم مـــخـــدومـــیـــہ اوشـــیـــورہ بـــرج*
*( جـــوگـــیـــشـــوری مـــمـــبـــئـــی )*
_*رابـــطـــہ نـــــمــــبــــــر*_⬇️⬇️⬇️
*https://wa.me/+917666456313*
*︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗*
🌻 _*اســــمٰـــعـــــیـــلـــی گـــروپ*_ 🌻
*︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘*
*الـــمــشـــتــہـر*
*بانـی اســـمٰــعــیـلی گــروپ مـــقـــیـم احـــمـــد اســـمٰــعــیـلی*
*(مــحـــمــود پــور لــوہــتـــہ بـنارس)*
*شــامـــل ہـــونـــے کـــے لـیئـــے رابـطــہ کـــریـں*
*رابـطـــہ نـمـبـــــر*⬇️⬇️⬇️
*https://wa.me/+917668717186*
۞۩۞۩۞۩۞۩۞۩۞۩۞۩۞۩۞۩۞۩
🌹 *6 ربیع الآخر 1442ھ بروز اتوار*
*عیسوی اکتوبر.( 22/11/2020 )*🌹.
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں